پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں ،زحمت میں رحمت تلاش کریں
ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب تک مختلف حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق ہوچکےہیں جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ پنجاب میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ راولپنڈی، چکوال اورگرد و نواح میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ ابھی یہ سلسلہ مزید کچھ دن تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
موسمیاتی موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین چیلنجز پیش کر رہا ہے اس وقت شدید موسمی حالات، پانی کی کمی، اور ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ تاہم، موسمیاتی تبدیلی کے کچھ فوائد بھی موجود ہیں جو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کے لیے مواقع فراہم کر سکتے ہیں اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔
2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کے بڑے حصوں کو متاثر کیا، جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، زرعی زمینیں تباہ ہوئیں، اور بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔ ان سیلابوں نے سندھ اور بلوچستان جیسے صوبوں میں تباہی مچائی، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آگئی اور فصلوں کا بھاری نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ، غیر معمولی بارشیں، گرمی کی لہریں، اور طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو انسانی جانوں اور املاک کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا انحصار دریاؤں اور گلیشیئرز سے ملنے والے پانی پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا باعث بن سکتے ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا، جو پاکستان کی زراعت کا بنیادی ذریعہ ہیں، پانی کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ واٹر اینڈ پاورڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مطابق، پاکستان کو 2030 تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو زراعت اور صنعتی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
موسمیاتی تبدیلی نے زراعت کے شعبے کو خوب متاثر کیا ہے۔ غیر متوقع بارشوں، خشک سالی، اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ گندم، چاول، اور کپاس جیسی اہم فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، جو غذائی تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔ مزید برآں، کیڑوں اور بیماریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو فصلوں کے لیے مزید نقصان دہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں صحت کے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ گرمی کی لہروں کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ سیلابوں اور بارشوں کے بعد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگی، ملیریا، اور ہیضہ عام ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں صحت کی سہولیات محدود ہیں، یہ بیماریاں جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف اگر جائزہ لیا جائےاور مناسب اقدامات کئے جائیں تو یہ ذحمت ہمارے لئے رحمت بھی بن سکتی ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے ارباب اختیار اس طرف توجہ دینے میں ابھی تک ناکام ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کی وہ توجہ نہیں دے رہے تو بات درست ہو گی۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں، جیسے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بلند علاقوں میں، ایسی فصلوں کی کاشت ممکن ہو سکتی ہے جو پہلے سرد موسم کی وجہ سے ممکن نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر، زیتون، انگور، اور سیب جیسے پھلوں کی کاشت کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، جو زرعی تنوع کو فروغ دیں گے۔اس سے نہ صرف ملکی ضروریات پوری ہونگی بلکہ زرمبادلہ کمانے کا بھی موقع ملے گا ۔
گلیشیئرز کے پگھلنے سے قلیل مدتی بنیاد پر پانی کی دستیابی بڑھ سکتی ہے، جو ہائیڈرو پاور کے منصوبوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ پاکستان، جو توانائی کے بحران سے دوچار ہے، نئے ڈیمز اور واٹر سٹوریج سسٹم کے ذریعے اس پانی کو توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ تربیلا اور منگلا جیسے ڈیموں کی گنجائش بڑھانے سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔
دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو صرف سیاحت سے کثیر زرمبادلہ کما رہے ہیں پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہو سکتا ہے ۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بہت سے علاقے ایسے ہیں جو سیاحون کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں وہان سہولیات فراہم کر کے غیر ملکیوں کو ڑاغب کی جا سکتا خاص کر شمالی علاقوں میں سیاحت کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ گرم موسم کی وجہ سے سیاحوں کے لیے سرد علاقوں جیسے مری، سوات، اور ہنزہ کے سفر زیادہ پرکشش ہو سکتے ہیں۔ اس سے مقامی معیشت کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی اور ہوا سے بجلی کی پیداوار پر توجہ دے رہا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ، شمسی توانائی کے منصوبوں کی ترقی سے نہ صرف توانائی کا بحران کم ہوگا بلکہ کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے، اور پاکستان اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ گرین کلائمیٹ فنڈ جیسے عالمی اداروں سے مالی اور تکنیکی امداد حاصل کی جا سکتی ہے، جو ماحولیاتی منصوبوں، واٹر مینجمنٹ، اور زرعی ترقی کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ویسے یہ صرف وہ نقطہ ہے جہاں ہماری حکومتیں کام کر رہی ہیں اور دنیا کو فنڈز کی فراہمی پر زور دے رہی ہیں لیکن یہان ایک سوال سب کے سامنے موجود ہے کہ کیا یہ فنڈز درست جگہ پہ استعمال ہوجائیں گے۔ بہرحال پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کو کم کرنے اور فوائد سے استفادہ کرنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ زحمت میں سے رحمت کو تلاش کیا جائے۔