Wednesday, July 23, 2025
آس پاس

میاں اظہر: ایک باب جو بند ہو گیا

لاہور کی تاریخی شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو چند ناموں میں سے ایک نام میاں اظہر کا بھی ۤئے گا لاہور کے میئر اور سابق گورنر پنجاب بھی رہے انھی کے دور میں گورنر ہائوس کے دروازے پہلی مرتبہ عوام کے لئے کھلے خاص کر بچے تو جب چاہے گورنر ہائوس جا سکتے تھے۔

22جولائی 2025 کی شب پاکستان کی سیاست کا معتبر اور باوقار نام خاموشی سے رخصت ہو گیا۔ سابق گورنر پنجاب، سابق مئیر لاہور، اور مسلم لیگ (ق) کے بانی رہنما میاں اظہر طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔ ان کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی لاہور میں ایک اداسی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ نہ صرف سیاسی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، بلکہ عوامی سطح پر بھی ان کی شخصیت کو سنجیدگی، وقار اور بردباری کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔

میاں اظہر کا تعلق لاہور کے ایک معزز اور کاروباری گھرانے سے تھا۔ وہ بچپن سے ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کی تعلیم لاہور میں ہی مکمل ہوئی اور انہوں نے وکالت کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ سیاست میں ان کی دلچسپی طالب علمی کے زمانے سے تھی، مگر باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

میاں اظہر کو سب سے پہلے عوامی سطح پر اُس وقت پذیرائی ملی جب وہ لاہور کے میئر منتخب ہوئے۔ ان کے دور کو لاہور کی شہری ترقی کے حوالے سے ایک سنہری دور کہا جاتا ہے۔ صفائی، ٹریفک مینجمنٹ، اور شہری انفراسٹرکچر میں ان کی اصلاحات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ مقامی حکومتوں کے حامی تھے اور سمجھتے تھے کہ اصل تبدیلی نچلی سطح پر کام کرنے سے ہی آتی ہے۔

1997میں انہیں گورنر پنجاب مقرر کیا گیا۔ اس دور میں انہوں نے ایک غیر جانب دار، متوازن اور آئینی گورنر کا کردار نبھایا۔ وہ وفاق اور صوبے کے درمیان رابطے کی ایک مضبوط کڑی بنے رہے۔ ان کے اندازِ حکمرانی میں شرافت، تدبر اور برداشت نمایاں تھیں۔ ان کا دفتر ہمیشہ سیاسی اختلافات سے بالاتر رہ کر کام کرتا رہا۔

میاں اظہر کا مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے تعلق پرانا اور قریبی تھا،وہ ہمیشہ نواز شریف کے وفادار ساتھیون میں شمار ہوتے تھے جب نواز شریف کا اقتدار ختم ہوا تو اسی دن میاں اظہر نے گورنر ہائوس چھوڑ دیا  مگر وقت کے ساتھ ان کے درمیان سیاسی فاصلہ پیدا ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد عبدہ حسین سمیت جن لوگوں نے مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی ان میں میاں اظہر بھی ژامل تھے ۔ 2002 کے انتخابات میں وہ اس نئی جماعت کے روحِ رواں تھے۔ اگرچہ وہ خود الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے، لیکن مسلم لیگ (ق) نے حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

الیکشن میں شکست کے بعد انھوں نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کر لی تھی بعد ازاں اسی سیاسی گھرانے سے

میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر نے بھی سیاست میں قدم رکھا اور وزیر مملکت سے لے کر وفاقی وزیر تک کا سفر کیا۔ ان کی سیاسی تربیت اور اخلاقی شعور میں میاں اظہر کی شخصیت کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔ والد اور بیٹے کا یہ رشتہ صرف خونی ہی نہیں بلکہ نظریاتی بھی تھا، اور دونوں ایک دوسرے کی سیاسی سوچ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

میاں اظہر کو صرف ان کے سیاسی کردار سے نہیں، بلکہ ان کی شخصیت کے وقار، شائستگی اور عاجزی سے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ میڈیا پر کم نظر آتے تھے، مگر جب بھی بات کرتے، مدلل، نرم مگر باوقار لہجے میں گفتگو کرتے۔ اختلافِ رائے کو برداشت کرنا ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ کسی کو ذاتی طور پر نیچا دکھانا ان کی سیاست کا حصہ کبھی نہیں رہا۔

حماد اظہر جو ۤاجکل مفرور ہیں  نے سوشل میڈیا پر اپنے والد کے لیے ایک جذباتی پیغام دیا، جس میں انہوں نے انہیں “اپنا ہیرو اور مشعلِ راہ” قرار دیا۔ لاہور میں ان کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جن میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

میاں اظہر کی وفات صرف ایک سیاستدان کے دنیا سے جانے کا واقعہ نہیں، بلکہ یہ ایک دور کے اختتام کا اعلان ہے۔ ان کی شخصیت ہمیں سکھاتی ہے کہ سیاست میں اصول، عزت، اور شرافت کی بھی جگہ ہوتی ہے۔ وہ ایک ایسا چراغ تھے جس کی روشنی ان کے جانے کے بعد بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔

لوگ مر جاتے ہیں، لیکن ان کی اقدار، ان کے کام، اور ان کے چھوڑے گئے اصول ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔یقینا میاں اظہر کا شمار بھی ان چند لوگوں میں ہوتا ہے، جنہیں وقت کبھی فراموش نہ کر سکے گا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *